
اگر جوان لڑکی کی شادی کسی بوڑھے سے کی جائے تو
چند دن پہلے کسی نے پوچھا پریشانیوں سے کیسے بچا جاۓ ؟ ۔ میں نے فورا جواب دیا اپنے ہم عمر لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں ۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں ۔نوجوانوں کی صحبت اختیار کریں ۔۔ کل مرید خاص کے ساتھ گپ شپ کے دوران گفتگو اس موضوع کی طرف نکل گئی ۔ میری دلیل سن کر اس نے ایک
کہاوت سنائی ۔ جس کو سن کر مجھے اپنی رائے میں کافی تقویت محسوس ہوئی ۔۔ کہتے ہیں کئے برسوں میں ایک نوجوان لڑکی کی شادی ایک بوڑھے امیر شخص کے ساتھ طے پاگئی ۔ ں لڑکی نے دو شرطیں سامنے رکھ دیں ۔ ان پر عمل ہوتا رہے گا تو میں ساتھ رہوں گی ورنہ طلاق ہو جاۓ گی ۔
پہلی یہ کہ جب بھی میرا خاوند گھر میں داخل ہو گا تو دیوار پھلانگ کر گھر آۓ گا ۔ دوسرا یہ کہ اپنے ہم عمر دوستوں کی بجاۓ نوجوانوں کی محفل میں جایا کرے گا ۔۔ بوڑھے نے بات مان لی ۔ اور شادی کے ابتدائی ماہ خوب گزرے ۔ بوڑھا شخص زندگی سے بھر پور طریقے سے لطف
اندوز ہونے لگا ۔ ایک دن اسے اپنے ہم عمر بوڑھے دوستوں کی یاد ستائی تو ان کی طرف جا نکلا ۔۔ کئی گھنٹے ساتھ گزار کر واپس آیا تو گھر کی دیوار پھلانگنے میں ناکام ہو گیا ۔ مجبورا دروازے پر دستک دینا پڑی ۔ رات جیسی بھی گزری ۔ صبح سویرے لڑکی نے اپنا سامان لپیٹا
اور گھر سے یہ کہہ کر نکل کر گئی ۔ دونوں شرطوں کی خلاف ورزی ہو چکی ہے ۔ اس لیے ہمارا رشتہ ختم ہو گیا ۔۔۔ حاصل کلام : خیالات کب بوڑھے ہوتے ہیں ؟ انسان اس وقت تک بوڑھا نہیں ہوتا جب تک اس کے خیالات بوڑھے نہ ہو جائیں اور انسان کو اسکے تفکرات بوڑھا کر دیتے ہیں ۔۔ اور ان تفکرات سے بچنے کا بہترین حل یہ کہ ان لوگوں کی صحبت سے بچا جاۓ جو اپنے تصورات کو زنگ آلود کر لیتے ہیں اور جو خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔